دیوار ہے کسی کی، دریچہ کسی کا ہے
لگتا ہے گھر کا گھر ہی اثاثہ کسی کا ہے
اک اور ہاتھ بھی ہے پسِ رقصِ حیلہ جُو
ہم تم تو پتلیاں ہیں، تماشا کسی کا ہے
یہ جو ہیں میرے پاؤں، کسی اور کے نہ ہوں
چل میں رہا ہوں، نقشِ کفِ پا کسی کا ہے
اشکوں سے بھر رہا ہوں میں اپنی دریدہ مشک
اتنے برس کے بعد بھی دریا کسی کا ہے
کیسے کہوں کہ اپنی زباں بولتے ہیں ہم
الفاظ لاکھ اپنے ہوں، لہجہ کسی کا ہے
ممکن نہیں کہ بھیک بھی گھر لے کے جائیں ہم
تابش ہمارے ہاتھ میں کاسہ کسی کا ہے
عباس تابش
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں